اکتوبرکا مہینہ، خواتین میں چھاتی کے سرطان سے منسوب ہے اور پنک ربن کو اس مرض کی علامت سمجھا جاتا ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 6 لاکھ خواتین، چھاتی کے کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں خواتین میں چھاتی کے کینسر کے سالانہ 90 ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے 50 سے 60 ہزار اموات ہوتی ہیں جو کہ ایشیا میں سب سے زیادہ اموات ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں چھاتی کے سرطان کی بیماری کے زور پکڑے کے بعد اس میں کمی لانے کیلیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں، اس سلسلے میں لوگوں میں اس بیماری سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی غرض سے سی ویو کراچی کے مقام پر سائیکل ریس اور واک کا اہتمام کیا گیا، جس میں بڑی تعداد میں خواتین، ڈاکٹرز اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی، واک اور سائیکل ریس کا پیغام چھاتی کا کینسر، پاکستان میں خواتین کی اموات کی دوسری بڑی وجہ، بیماری نہ چھپائیں، علاج کرائیں، رکھا گیا۔
Credit: Supplied by Ehsan Khan
ڈاکٹرزبیدہ قاضی کے مطابق پاکستان میں بریسٹ کینسر کا شکار ہونے والی خواتین زیادہ تر تیسرے یا چوتھے اسٹیج میں سامنے آتی ہیں ، لیکن اس وقت ڈاکٹرز کیلیے مریض کا علاج کرنا ممکن نہیں رہتا، ڈاکٹرزبیدہ قاضی کہتی ہیں یہ پیغام ضروری ہے کہ مریض کو معلوم ہو کہ اسے ڈاکٹر کو کب دکھانا ہے، حکیم یا محلے میں کسی کو دکھانے سے خواتین کے مسائل بڑھ سکتے ہیں، پنک پاکستان ٹرسٹ کی سربراہ ڈاکٹر زبیدہ قاضی کے مطابق خواتین کو اپنی چھاتی کا معائنہ کرنا خود آنا چاہیے۔
ڈاکٹر ماہا حیدر بھی اس آگاہی واک میں شریک تھیں، ان کے مطابق پاکستانی معاشرے میں خواتین کی صحت کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے، خواتین غربت یا شعور نہ ہونے کی وجہ سے علاج نہیں کرواتی، جس کے باعث زیادہ تر کیسز میں خواتین اس مرض سے انتقال کر جاتی ہیں۔
Credit: Supplied by Ehsan Khan
واک میں شریک ایک خاتون کے مطابق اس طرح کی تقریبات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
اسی واک میں شریک ڈاکٹر نوید بھٹو نے اس طرح کے پروگرامز کو انتہائی خوش گوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ چھاتی کے سرطان کے حوالے سے لوگوں کو پیغام دینا ضروری ہے تاکہ سالانہ اموات کی تعداد کو کم سے کم کیا جا سکے ۔
سائیکل ریس کا آغاز سی ویو ایمار ٹاور سے ہوا جس میں سو سے زائد مرد و خواتین سائیکلسٹ نے حصہ لیا۔ کلفٹن اور ڈیفنس کی مختلف شاہراہوں پر 30 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ریس کا نقطہ آغاز پر ہی اختتام ہوا، جس کے بعد پانچ کلومیٹر پر محیط واک کا اہتمام بھی کیا گیا۔
بشکریہ احسان خان