'آج تمام مریض مر چکے ہیں': غزہ سےایک سرجن کی ڈائری جسے سوشل میڈیا پر ہزاروں افراد نے شئیر کیا
وہ کونسا جذبہ تھا جس نے ڈاکٹر ڈیوڈ حسن کو امریکہ میں اپنی آرام دہ زندگی چھوڑ کر جنگ سے تباہ حال غزا جا نے پر مجبور کیا؟ ایس بی ایس نیوزسے ایک خصوصی انٹرویو میں،انہوں نے بنیادی طبی سہولیات کی عدم موجودگی میں مریضوں کے علاج کے اپنے تکلیف دہ اور روح فرسا تجربات شیئر کئے۔
تاریخِ اشاعت 22/01/2024 1:48pm بجے
تخلیق کار Christy Somos
ذریعہ: SBS
Image: غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 24 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں اور مزید 61,154 مبینہ طور پر زخمی ہوگئے ہیں۔ (Getty / AFP)
انتباہ: اس کہانی میں تفصیلات اور تصاویر شامل ہیں جو گرافک ہیں اور کچھ لوگوں کے لئے پریشان کن ہوسکتی ہیں۔ قارئین کو احتیاط کا مشورہ دیا جاتا
چوتھا دن: انسانی المیہ
یہ ایک خوفناک صبح ہے، ہمیں ایک کمسِن بچے کو مردہ قرار دینا پڑا۔ اس بچےکے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا... میں نے اس کا نام اس طرح درج کر دیا پھر میں نے اسکے مردہ جسم کو ایسے بانہوں میں بھینچ لیا جیسے ۔۔۔جیسے وہ میرا اپنا بیٹا یعقوب ہو۔ میں اس کے لئے رویا۔
یہ شمالی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے ایک امریکی نیورو سرجن ڈاکٹر ڈیوڈ حسن کی ایک ڈائری کا وقرق ہے وہ غزہ کے بین الاقوامی طبی امدادی مشن میں شامل تھے۔
ان کے غزہ میں قیام کے دوران ان کی اہلیہ، ڈاکٹر لارین حسن، جو خواد ایک ٹروما سرجن ہیں انہوں نے پانے شوہر کی غزہ کی اس ڈائیری کے مندرجات ، شیئر کیے، جو ہزاروں بار دیکھے اور شیئر کیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر ڈیوڈ حسن نے ایس بی ایس نیوز کو بتایا کہ انہیں نے امریکہ میں اپنی آرام دے زندگی چھوڑ کرایک جنگی زون میں جانے کا انتخاب کیوں کیا اور انہوں نے وہاں کیا دیکھا ۔
حسن نے امریکہ سے ایس بی ایس نیوز کو بتایا، “میں تقریبا 15 سال سے نیورو سرجن رہا ہوں۔
ڈاکٹر حسن نیورو سرجن ہیں اور، ڈیوک یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں استاد ہونے کے علاوہ 270 سے زیادہ تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ گرانٹس اور متعدد میڈیکل جرائلز کے بورڈز میں رکنیت کے ساتھ وسیع تحقیقی اسناد حاصل کیے ہوئے ہیں۔
وہ اپنی سات سالہ بیٹی ہننا اور اپنی اہلیہ کو کرسمس کی تعطیلات کے دوران امریکہ میں چھوڑ کر جانے کے فیصلے کی حمایت کو سراہتے ہیں۔ یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔
حسن نے ہناہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا، “وہ حیرت انگیزطور پر حوصلہ مند ہیں۔
“انہوں نے کھلونے اور لالی پاپس کا ایک بڑا بیگ خریدا جسے میں اپنے سوٹ کیس میں پیک کرسکتا تھا اور مجھے کرسمس کے دن غزہ کے بچوں کو دینے کو کہا۔”
ڈیوڈ حسن اپنی اہلیہ لارین اور سات سالہ بیٹی ہننا کے ساتھ۔ وہ امریکہ میں شمالی کیرولائنا میں رہتے ہیں۔ Source: Supplied
اقوام کو منظور ہونے پر ہمیں ایک موقع ملا جس میں غزا کو امداد بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا تو حسن نے اسی لمحے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا، “میرے لئے، فیصلہ واقعی مشکل نہیں تھا۔”
“میں اس کے نتائج کو جانتا تھا، میں جانتا تھا کہ کیا ہوسکتا ہے... لیکن جب آپ دیکھتے ہیں کہ ان بچوں کے ساتھ کیا ہوا اس بارے میں سوچتے ہیں اور سوشل میڈیا پر تصاویر دیکھتے ہیں تو، آپ اب اپنے بارے میں نہیں سوچتے ہیں۔”
حسن نے اس مقام پر قدم رکھا جسے کے لئے قبرستان” قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزا پر اسرائیل کی جانب سے تین ماہ کی فوجی کارروائی نے اس کے وسیع مقامات کو ملبے میں بدل دیا ہے، جس سے اوہاں کے تقریبا تمام 2.3 ملین رہائشیوں کو گھر بار چحوڑنا پڑا اور 24 ہزار سے زیادہ افراد، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہلاک ہوگئے ہیں۔
ماس کے ان حملوں کا جواب تھا جب اس حملے میں 1200 اسرائیل ہلاک اور تقریبا 240 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
Hasan shared images of the devastation he witnessed on the ground in southern Gaza. Source: Supplied
اسرائیل نے حماس کو تباہ کرنے اور تمام یرغمالیوں کی واپسی تک اپنے حملے جاری رکھنے کا عہد کیا ہے۔ 2014 سے فلسطینی علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کی تفتیش کے حصے کے طور پر بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ذریعہ تحقیقات کی جارہی ہیں، جس میں اسرائیل اور حماس دونوں کے حالیہ حملے بھی شامل ہیں۔
7 اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل کے غزا کے محاصرے نے بڑے پیمانے پر کھانے، ایندھن، ادویات اور بین الاقوامی میڈیا کو داخل ہونے سے روکا ہے، جس سے اقوام متحدہ نے “انسانی تباہی” قرار دیا ہے۔
ان حالات میں کام کرتے ہوئے، حسن نے ڈائری یا روزنامچہ لکھا، جس میں سے کچھ کے اقتباس ذیل میں نقل کئے جارہے ہیں ۔
پہلا دن: غزہ کا سفر
رفح کراسنگ تک 12 گھنٹے کا سفر. 11 مصری چوکیاں یا ناکے... شاہراہ کے چار اطراف 18 وہیلرز ٹرک، امداد منتقل کرنے کا سب سے غیر موثر طریقہ۔ جہاں کھانا اور طبّی سامان کی ضرورت ہر گھنٹے پر ہو، وہاں کبھی کبھی ایک سے دو ہفتے میں سڑک کے راستے ٹرک سرحد عبور کرتے ہیں اور تب تک بیشتر کھانا خراب ہوچکا ہوتا ہے۔
حسن اور ان کی ٹیم کے لیے ایک آزاد امدادی تنظیم رحمہ ورل ایڈ کے ساتھ پہلی رکاوٹ کو عبور کرکے صرف مصر میں رفح سرحد کراسنگ تک پہنچنا تھا اور اسکے بعد پھر جنوبی غزا میں جانا تھا۔ حسن، کینیڈا اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے طبی پیشہ ور افراد کی ایک ٹیم کے ساتھ، 26 دسمبر کو غزا میں داخل ہوئے۔ انہوں نے کہا، “جب ہماری گاڑی بڑھی تو، ہم نے مکمل تباہی دیکھی،زمیں سطح پر کی جانے والی بمباری سے ہونے والے ملبے کو دیکھا۔” “ہم نے مہاجرین، بے گھر خاندانوں کا ایک سمندر دیکھا جو خان یونس کے دونوں اسپتالوں کے احاطے میں رہتے ہیں۔” حسن کا اندازہ ہے کہ ناسر اسپتال اور یورپی اسپتال کے اندر اور باہر 100،000 سے زیادہ لوگ تھے۔ یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ غزا کے 2.3 ملین افراد میں سے 85 فیصد بے گھر ہیں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ وہاں موجود امدادی عملہ بھی سخت تھکاوٹ کی حالت میں ہے۔ “وہ سب بے حال ہو چکے ہیں۔ وہ اضراب میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ 90 دن سے دن رات امدادی کام کر رہے ہیں لاشیں اٹھا رہے ہیں۔۔ “وہ دن میں 24 گھنٹے اسپتال میں رہتے ہیں، اور انہیں معلوم نہیں ہے کہ ان کا کنبہ زندہ ہے یا نہیں۔
دوسرا دن: کام پر پہلا دن
منگل رفح سرحد عبور کی.. غزہ میں سب سے پہلے فریکچر اور سر کی چوٹوں والے ذخمیوں کی سرجری کی۔ غروب آفتاب تک، بمباری کا آغاز ہوگیا اور ساری رات بمباری جاری رہی۔ بمباری بہت قریب ہورہی ہے شائید صرف دو میل دور ۔ پہلی بمباری اتنی شدید اور اندھا دھند تھی کہ میں اپنے اسٹول سے گر گیا اور پورا علاقہ لرز کر رہ گیا۔ ۔ لیکن ہم آپریشن کرتے رہے... حسن نے اسپتال کے اندر افراتفری، خوف اور تکلیف بیان کی۔ انہوں نے کہا، “جب آپ اسپتال میں چلتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ صرف دالان یا صحن میں رہتے ہیں اور سو رہے ہیں... ہر خاندان نے صرف ایک چھوٹا سا کونے یا دالان یا دفتر کا تھوڑا سا حصہ وقف کیا ہے اور وہ وہاں رہتے ہیں۔” یہ اسپتال غزا میں ان چند مقامات میں سے ایک ہے جن کو ابھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ حسن نے کہا کہ بمباری رات کے وقت شروع ہوتی ہے، اور ان لوگوں کو جو ملبے کے نیچے پھنس گئے یا پھنس گئے ہیں ان کو بچانے کے لئے صبح تک انتظار کرنا ہوگا کیونکہ “رات کے وقت حرکت کرنے والی کوئی بھی چیز بمباری کے نشانے پر ہوتی ہے اور تباہ کردی جاتی ہے۔” حسن لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں 80 یا 90 فیصد رات بھر میں خون بہہ چکنے کے باعث ہوتی ہیں، “ہم نے بچوں، خواتین، بزرگوں کو دیکھا۔ میں نے ایک بچے کو دیکھا جسکا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا - اہمیں ان ٹکڑوں کو ایک ساتھ رکھنے کے لئے انہیں ایک بیگ میں لے جانا پڑا۔
تیسرا دن: اسپتال میں افراتفری
کھانا بہت کم ہے۔ پانی ایک بہت قیمتی شہ ہے۔ باتھ روم تک رسائی ایک عیاشی ہے... مجھے ایک پانچ سالہ لڑکی کا آپریشن کرنا پڑا، جو خاندان کے 37 لوگوں میں واحد تھی جو بچ گئی تھی
ا سکے سر میں کئی فریکچر تھے، اس کے ساتھ اور ایک اور چار سالہ بچہ جس کے سر میں گولی پھنسی ہوئی تھی۔ حسن نے کہا کہ ہنگامی صورتحال سے دوچار کیسیز سے نمٹنے کے لئے کینسر یا ذیابیطس کے مریضوہ پر توجے کا وقت اور ذرائعے مفقود تھے۔ سب سے پہلے خون بہنے والے زخمیوں اور لاشوں کی طرف توجے دینا تھی۔ “ کچھ لوگ نظر آتے ہیں ہیں، آپ ان کو بمشکل زندہ کہ سکتے ہیں مگر دوائی، اوزار غزا، پرہم ، پٹّی کچجھ نہیں ہے ہمارے پاس۔ ان سے آنکھیں ملائے بغیر ان کی مُردوں جیسی حالت دیکھتے ہیں مگر آپ صرف اتنا کہتے ہیں، 'میں آپ کی مدد نہیں کرسکتا' ۔ “ہمارے پاس سامان نہیں ہے، ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، اور لہذا وہ آپ کے سامنے ہی دم توڑدیتے ہیں۔” کچھ لمحے کچھ مناظر تصاویر کی طرح آنکھوں میں قید ہو گئے ہیں - ایک سرجن کی حیثیت سے ان کی وسیع پیشہ ورانہ تربیت کے باوجود یہ تکلیف دہ مناظر کبھی دل و دماغ سے محو نہیں ہوں گے۔۔ “لہذا جب میں سرجری میں ہوں تو میں انہیں بھلانا چاہتا ہوں تاکہ زنددگی بچانے پر توجّے مرکوز کر سکوں مگر جب میں گھر جاتا ہوں اور اپنا سر جھٹکتا ہوں مگر یہ تصاویر بار بار سامنے آتی ہیں - آپ انہیں بھول نہیں سکتے۔” سرجن حسن نے لکھا کہ شام کے وقت تمام خاندان جمع ہوتے ہیں، اور اگر ان کے پاس کھانا اور پانی ہے تو وہ اسے اپنے درمیان بانٹتے ہیں۔ “وہ سب ایک دوسرے کو گلے لگارہے ہیں اور ایک دوسرے کو پیار کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ وہ ان سے پیار کرتے ہیں - کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ کل صبح کیا ہوگا۔”
پانچواں دن: سونامی کی چھوٹی لہر
ایک خاص کہانی جس نے میرے دل کو چیر کر رکھ دیا۔ وہ تین بچوں کی کہانی ہے، جن کی عمر ڈیڑھ سال، چھ سال اور دس سال ہے... ان کے خاندان کا کوئی بڑا نہیں بچا ہے... 10 سالہ بچّی فوری طور پر ساڑھے چھ سالہ بچے کی دیکھ بھال کرنے والی بن گئی۔ اتنی بہادر اور مضبوط لڑکی جو میں نے کبھی نہیں دیکھی ہے۔ وہ کبھی نہیں روئی۔
حسن نے کہا کہ یہاں ہر طرح کے زخمی ہیں ۔ کئی کے چوٹیں ہیں ،کٹے ہوئے زخم، گہری چوٹیں اور تیز دھاری چیزون کے بڑے گھاؤ ۔۔۔ہر طرح کے زخموں سے لے کر جسم سے لٹکتے کٹے ہوئے اعضاء تک ہیں۔ ملبے سے کچل جانے کے بعد کچھ چہرے پیاروں کے لئے ناقابل شناخت ہیں۔
حسن کا خیال ہے کہ اسرائیلی حملوں کے آغاز کے بعد غزہ میں شاید 50،000 سے 60,000 نئے معذورین ہیں۔ “سرجری کے بعد زخم انفیکشن سے متاثر ہوجاتے ہیں، ہم انہیں انفیکشن سے مرتا دیکھتے ہیں، اور ہم انہیں کھو دیتے ہیں۔” “ان کے پاس سرجری کرنے کے لئے پہننے کے لئے کوئی گاؤن نہیں ہے۔ ان کے علاج کے لئے کوئی اینٹی بائیوٹک نہیں ہے۔ حسن نے کہا کہ ان کے پاس سکون کی فراہمی کے لئے کوئی مورفین یا کیٹامائن نہیں ہے - انہیں بغیر بےہوش کئے مریضوں کو سرجری کرنا پڑی۔ کے مطابق یہاں بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ فلو، ہیپاٹائٹس، ہیزا اور کوویڈ مہاجرین اور مریضوں کے ذریعے پھیل رہی ہیں اور انہوں نے بتایا کہ کوڑے کرکٹ ، کچرے کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
“یہ صرف آغاز ہے،یہ بڑھتی بیماریاں اس کی چھوٹی لہر ہے جو وبا پھوٹنے کی سونامی ہوسکتی ہے جو بچی کچھی آبادی کو متاثر کرسکتی ہے۔”
کچھ تصاویر - سرجن کی حیثیت سے حسن کی وسیع پیشہ ورانہ تربیت کے باوجود - ختم نہیں ہوں گی۔ Source: Supplied / David Hasan
ڈے چھٹا: ہنگامی حالت بمقابلہ ہنگامی حالات
دوپہر تک ہمیں دو ہنگامی صورتحالوں کا سامنا تھا جن سے فوری طور پر نمٹنا اشد ضروری تھا۔ لیکن آپریشن کی جگہیں بھری پڑی تھیں۔ ...آپریشن کے کمرے میں صرف ایک ہی مریض جا سکتا ہے اور دوسرے کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ میں کس کی جان بچاؤں اور میں کس کو چھوڑ دوں۔ میں کشمکش میں ہوں ؟ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ان دونوں پر بیک وقت ایک کمرے میں کام کروں گا... میں جلدی سے خون سے بھرے کمرے کو صاف کرنے گیا، لیکن اب پانی نہیں ہے۔
حسن نے کہا کہ اسپتال کے اندر اور اس کے آس پاس بنیادی ڈھانچہ ختم Source: Supplied
حسن نے کہا کہ اپنی ڈائری کے اندراجات بھیجنا بھی ان کی اہلیہ سے بات چیت کی ایک شکل بن گئی تاکہ انہیں معلوم رہے کہ وہ وہ زندہ ہیں۔ ا
ایک موقع پر میں نے اپنی اہلیہ کو بتایا کہ اگر آپ 24 گھنٹوں میں مجھ سے کچھ نہ سنیں تو بس اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ محکمہ خارجہ کو آگاہ کریں۔”
ڈائری اندراجات بھی ان کی بیٹی کے لئے یہ سمجھنے کے لئے تھیں کہ انہوں نے یہ سفر کیوں کیا۔
“میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اگرمجھے کچھ ہوتا ہے تو یہ تمام باتیں میری بیٹی اہنے والد کی سوانح عمری کے دھاگوں کے طور پر رکھے جس کے ساتھ میری بیٹی رہ سکے اور جان سکے کہ والد کو کیوں اسے چھوڑ کر مدد کرنا پڑی... میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اسے افسوس ہو کہ اس نے مجھے غزا جانے دیا۔”
اپنی ڈائری اندراجات بھیجنا بھی ان کی اہلیہ کے ساتھ بات چیت کی ایک شکل بن گئی کہ وہ زندہ ہے۔ Source: Supplied
ساتوں دن: گھر واپسی
اب ہم رفہ کی سرحد کی طرف جانے والی وین میں غزہ سے باہر جارہے ہیں... میرے جسم نے رفہ کو عبور کیا لیکن میری جان، روح اور دل اب بھی غزہ کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ حسن اب امریکہ میں گھر واپس آگئے ہیں۔
___________________________
پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے:
شئیر