"آپ یہاں موجود ہوں اور دل شکستہ نہ ہوں یہ ممکن نہیں۔"غزہ پر اسرائیلی حملوں میں شدت

gaza.jpg

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

"ان دیواروں کے پیچھے بیس لاکھ لوگ ہیں جو شدید مشکلات سے نبرد آزما ہیں،اس لئے یہ امدادی ٹرک محض ٹرک نہیں بلکہ زندگی کی امید ہیں۔ یہ غزہ کے لوگوں کے لیے زندگی اور موت کے بیچ فرق ہیں۔"



مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ ہوتی ہوئی صورتحال میں اسرائیلی فوج نے غزہ میں جاری حملے مزید تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ انتباہ عین اس دن سامنے آیا ہے جب اشد ضروری امدادی سامان کا پہلا قافلہ جنگ زدہ غزہ میں داخل ہوا ہے۔

دو ہفتوں کی شدید بمباری اور جھڑپوں کے بعد تباہ حال غزہ میں 20 امدادی ٹرکوں کا پہلا قافلہ داخل ہوچکا ہے۔

غزہ کے جنوبی حصے کو مصر سے ملانے والی رفاح راہداری کھلنے کے بعد ہی خوراک، پانی اور ادویات پر مشتمل اس ضروری امدادی سامان کی ترسیل ممکن ہوسکی ہے۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ کی سرحدبندی سے قبل روزانہ کی بنیاد پر اسی طرح کے قریب 400 ٹرک یہاں کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرتے تھے۔

اس حساب سے حالیہ محض 20 ٹرکوں کی امداد خاصی کم لیکن پھر بھی شدید ضروری قرار دی جارہی ہے۔

رفاح راہداری پر امدادی قافلے کو غزہ کی جانب روانہ کرتے ہوے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتھونیو گوٹیرش نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کو ہر روز کم از کم 10 امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے۔

"آپ یہاں موجود ہوں اور دل شکستہ نہ ہوں یہ ممکن نہیں۔ ان دیواروں کے پیچھے بیس لاکھ لوگ ہیں جو شدید مشکلات سے جونچ رہے ہیں، تو یہ امدادی ٹرک محض ٹرک نہیں بلکہ زندگی کی امید ہیں۔ یہ غزہ کے لوگوں کے لیے زندگی اور موت کے بیچ فرق ہیں۔"
انتھونیو گوٹیرش

غزہ کی قریب 23 لاکھ کی آبادی انتہائی کم کھانے اور غلیظ پانی پینے پر مجبور ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک WFP کی ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر سنڈی مک کین نے خبردار کیا ہے کہ لاکھوں لوگ بھوکے ہیں اور غزہ میں بھوک بڑھ رہی ہے۔

غزہ کی باسی تحریر تابش اپنے چھ بچوں سمیت ایک محفوظ پناہ گاہ میں گزشتہ کئی دنوں سے حالات کی بہتری کی امید لیے انتظار کر رہی ہیں۔

ہمارے بچے رات میں انتہائی خوفزدہ رہتے ہیں اور ڈر کے مارے ان کا پیشاب نکلتا رہتا ہے۔ میرے لیے بار بار ان سب کی صفائی ناممکن ہے ۔ یہ ساری جگہ بھری ہوئی ہے۔ ہمارے بچوں کے لیے ایک فیصد بھی اچھی اور صحت مند زندگی نہیں ہے۔ اگر ہم جنگ میں نہیں مارے گئے تو یہ وبا اور بیماریاں ہمیں مار دیں گی۔"

gaza_weather.jpg

اسرائیلی حکام نے غزہ میں حملے تیز کرتے ہوئے حماس کو نابود کرنے کا عزم دہرایا ہے۔

سینکڑوں ٹینک غزہ کی سرحد پر تیار کھڑے ہیں اور اسرائیلی فوج نے 360،000 اضافی ریزرو دستوں کو بھی چوکس کر دیا ہے۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینئیل ھیگری کے بقول زمینی حملے کے لیے احکامات کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے غزہ کے شمال میں بسنے والوں کو ایک بار پھر علاقہ خالی کرنے کا حکم دہرایا۔

غزہ کی سرحد پر اسرائیلی فوجیوں سے خطاب کرتے مسلح افواج کے سربراہ ہارزی حالیوی نے کہا کہ "مقصد واضح" ہے۔
غزہ گنجان آباد ہے اور "دشمن" نے بہت سے تیاریاں کر رکھی ہیں اور ہم نے بھی اس کے لیے بہت چیزیں تیار کی ہیں۔ ہم غزہ پٹی میں داخل ہوں گے۔ ہم حماس کے کارندوں اور نظام کو تباہ کرنے کے مشن کا آغاز کریں گے اور ہم اپنے ذہنوں میں دو ہفتے قبل کی تصاویر رکھیں گے۔
اسرائیلی مسلح افواج کے سربراہ ہارزی حالیوی
دریں اثنا حزب اللہ تنظیم نے اسرائیلی حملے کی صورت میں حماس کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ حزب اللہ کے نائب رہنما نعیم قسیم کے بقول اسرائیل کے پاس حماس سے جنگ جیتنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

ان کے بقول: "ہمیں تشویش ہے اور ہم اس جنگ کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ واضح ہے کہ جیسے حالات بدلیں اور ایسی صورت ہوں جس میں ہماری زیادہ ضرورت ہو تو ہم وہ کریں گے۔"

حماس نے البتہ کہا ہے کہ وہ اسرائیلی پرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے قطر اور مصر کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔

یودت رانن اور ان کی سترہ سالی بیٹی نیٹیلی رہائی پانے والے پہلے دو یرغمالی تھے جنہیں 21 اکتوبر کو رہا کیا گیا۔
دونوں نے رہائی پانے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ یاد رہے کہ 7 اکتوبر کے حملوں میں حماس نے قریب 200 اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا تھا۔

اس تناظر میں آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البنیزی امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال مصر میں منعقدہ یورپی اور عرب سربراہان مملکت کے اجلاس میں بھی زیر بحث رہی۔ جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اس موقع پر کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے اتفاق رائے اہم ہے۔

اور مجھے خوشی ہے کہ یہاں اس کمرے میں ہم اس بات پر متفق ہیں کہ بالآخر اس خطے کو ایک نئے امن عمل کی ضرورت ہے جو اسرائیل اور فلسطینی دونوں کو دو آزاد ریاستوں میں امن و امان کے ساتھ شانہ بشانہ رہنے کا موقع فراہم کرے گا۔ آج، لیکن صرف ایک منصفانہ اور دیرپا حل کا مطلب حماس اور اس کی سوچ کی حتمی شکست ہے جو انسانیت، سفارت کاری کے مکمل رد پر مبنی ہے۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک

 

 

 

شئیر