آسٹریلیا میں مصنوعی خلیوں کی تیاری میں قابلِ ذکر پیش رفت کس طرح دنیا بھر میں انسانی زندگیاں بچا سکتی ہے؟

Carrying out stem cell research in the lab (SBS).jpg

Carrying out stem cell research in the lab (SBS) Source: SBS

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

آسٹریلین سائنس دانوں نے لیب انجینئرڈ بلڈ اسٹیم سیل بنانے میں قابلِ ذکر پیشرفت کی ہے ۔ عالمی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی خلیے کی تیاری میں پیش رفت ایک دن 'بالکل مماثل' بون میرو ڈونرز کی تلاش کو ختم کرسکتی ہے۔


اسٹیم سیلز ایسے خلیے ہیں جن میں جسم میں مختلف اقسام کے خلیات میں تبدیل ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
میلبورن میں مقیم گوراو اور سونالی مہاجن ہندوستان میں تھے جب انہوں نے پہلی بار اپنی بیٹی کی ٹانگوں پر چوٹ دیکھی۔
ریا، جو اس وقت 11 سال کی تھی، بھی بخار کا شکار تھیں اور تھکاوٹ محسوس کررہی تھی۔
ٹیسٹ سے انکشاف ہوا کہ اس کے خون میں پلیٹلیٹ کی سطح انتہائی کم تھی۔ عام حد 150،000 سے 450,000 کے درمیان ہے۔ ریا کی تعداد 4،000 پر تھی۔
پلیٹلیٹس، یا تھرومبوسائٹس، (Platelets, or thrombocytes) خون میں شامل ایسےچھوٹے بے رنگ خلیے ہوتے ہیں جو ذخم کی صورت میں خون کو جمنے میں مدد دے کر خون کے بہنے سے روکنے کا کام کرتے ہیں۔

اپنی بیٹی میں پلیٹلیٹس کی کمی کی تشخیص کے بعد یہ خاندان فوری طور پر آسٹریلیا واپس آ یا ۔
گوراو کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی جانب سے تشفی کے بعد کے ریا کی صحت فضائی سفر کے لئے ٹھیک ہے وہ میلبورن جانے والی پرواز میں سوار ہوگئے۔
آسٹریلیا واپسی کے بعد چھ ماہ تک میلبورن کے رائل چلڈرن اسپتال میں ریا کی تھریپیس اور بلڈ ٹرانسفیوژن ہونے کے بعد اسے بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی أ ریا کہتی ہیں کہ وس دوران ان کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔
ہر دوسرے دن خون کی منتقلی سمیت تقریبا چھ ماہ کی تھراپی کے بعد، بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سفارش کی گئی ، گاوراو کا
کہنا ہے کہ بالکل مماثل ڈونر تلاش کرنا ایک مشکل اور پریشان کن مرحلہ تھا۔
مہینوں کے انتظار کے بعد، ریا کی والدہ نے صرف 50 فیصد جینیاتی میچ ہونے کے باوجود اپنی بیٹی کی ڈونر بننےکا فیصلہ کیا ۔ ٹرانسپلانٹ کامیاب رہا لیکن ایک مکمل ڈونر میچ کے بغیر، ریا کو پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اسے تین ماہ تک اسپتال میں الگ تھلگ کرنا پڑا۔
دنیا میں پہلی بار آسٹریلین سائنس دانوں نے لیب انجینئرڈ بلڈ اسٹیم سیل بنائے ہیں - جو انسانوں کے خلیوں کی طرح ہیں - اور کامیابی کے ساتھ انہیں چوہوں میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مستقبل کے علاج میں مریض کی جلد، خون یا بالوں کا نمونہ لینا، ان کے خلیوں کو دوبارہ پروگرام کرنا اور پھر انہیں مریض کے جسم میں منتقل کرنا شامل ہوسکتا ہے۔
مرڈوک چلڈرن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ایڈ اسٹینلے اس تحقیقی ٹیم کا حصہ ہیں۔
محققین تسلیم کرتے ہیں کہ جانوروں کا مطالعہ کافی نہیں ہے اور انسانوں میں طبی آزمائش تقریبا پانچ سال تک لگ سکتے ہیں لیکن مصنوعی جینز کی دریافت ایک دن ڈونر کی قلت کو دور کرسکتی ہے۔
لیڈ ریسرچ ایسوسی ایٹ پروفیسر الزبتھ این جی کا کہنا ہے کہ مصنوعی خلئے کی تیاری مماثل ڈونرکے متلاشی افراد کی مشکلات دور کر سکی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ “ٹیکنالوجی کی رفتار اور لاگت جیسے عوامل مزید تحقیق میں رکاوٹ ضرور ہیں لیکن مہاجن کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں مصنوعی خلیوں کی تیاری میں پیش رفت دنیا بھر ان جیسے خاندانوں کی زندگی بدل سکتی ہے۔
__________________________________________________________________

کس طرح ایس بی ایس اردو کے مرکزی صفحے کو بُک مارک بنائیں یا
کو اپنا ہوم پیج بنائیں۔
ڈیوائیسز پر انسٹال کیجئے
§ پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے:

شئیر