آسٹریلیا میں مریضوں کو علاج کے وقت بات چیت میں مشکلات کا سامنا کیوں؟

Doctor and senior patient discussing medical test results using digital tablet

Doctor and senior patient discussing medical test results using digital tablet Source: Photodisc

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آسٹریلیا تیزی سے کثیر الثقافتی ملک بنتا جا رہا ہے لیکن اسکے ساتھ ہی اس بات پر تشویش پائی جارہی ہے کہ میڈیکیئر کے ذریعے متنوع کمیونٹیز کو مایوس کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ موجودہ فنڈنگ میں وہ وقت شامل نہیں ہے جو وہ ان مریضوں کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں جن کے لیے انگریزی ان کی پہلی زبان نہیں ہے۔


تازہ ترین آسٹریلوی مردم شماری نے ہمیں بتایا کہ ہم تیزی سے کثیر الثقافتی قوم بنتے جارہے ہیں۔

آسٹریلوی بیورو آف سٹیٹسٹکس کی تھریس ڈکنسن نے سروے کی ریلیز کے وقت اس بات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا۔

جیسے جیسے آسٹریلیا کی کثیر الثقافتی برادری میں اضافہ ہورہا ہے، اس کے ساتھ ہی مختلف سروسز اور خدمات کی مانگ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

جس میں صحت کی دیکھ بھال جیسے کچھ خدمت کے شعبوں میں مدد کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔

رائل آسٹریلین کالج آف جنرل پریکٹیشنرزکے بروس ولیٹ کہتے ہیں کہ فیملی ڈاکٹروں کے ساتھ مشاورت کے دوران ٹیلی فون مترجم کی خدمات کی زبردست مانگ ہے۔

بروس ولیٹ کا کہنا ہے کہ تمام طبی شعبے ترجمہ  کرنے والوں کا استعمال نہیں کرتے کیونکہ مریض کے ساتھ خاندان کا کوئی شخص مترجم کے فرائض انجام دے دیتا ہے۔

یہ حالات ہیلتھ کئیر میں زبان کے علاوہ مزید انکاشافات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

کلچرل اینڈ انڈجینس ریسرچ سنٹر آسٹریلیا (سرکا) نے 2017 میں آسٹریلین کمیشن آن سیفٹی اینڈ کوالٹی ان ہیلتھ کئیرکیلیے ایک رپورٹ مکمل کی تھی جسکے مطالعے سے پتا چلا ہے کہ مختلف پس منظر کے افراد جن مخصوص حالات میں علاج کے لیے آتے ہیں تو انہیں صحت کی خدمات تک رسائی میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں کلیدی فرق موجود ہے۔

سیٹلمنٹ سروسز انٹرنیشنل کی ڈاکٹر ایسٹرڈ پیری کا کہنا ہے کہ ان کے تجربہ کے مطابق آسٹریلیا میں نئے آنے والے افراد کو صحت سے مطلق مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انکا ادارہ ان کثیر الثقافتی پس منظر رکھنے والے افراد کی مدد کرتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ایسے افراد کے مرض کی اکثر غلط تشخیص کر دی جاتی ہے یا وہ خود غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔

بروس ولیٹ کا کہنا ہے کہ ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والے ڈاکٹر اس فرق کو مٹانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

آسٹریلیا میں آدھے سے کم جی پی خود کثیر ثقافتی پس منظر سے آئے ہیں۔

ڈاکٹر پیری کا کہنا ہے کہ جی پیز کو شہروں یا صرف چند زبانی گروپوں میں مرکوز کیا جائے تو اس سے بہتری لائی جاسکتی ہے۔

عارضی ویزوں پر آئے افراد یا پناہ گزینوں کو اگر اپنی زبان بولنے والا جی پی مل بھی جائے تو انکے لیے اسکی فیس ادا کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر پیری کہتی ہیں،

ڈاکٹروں کو اس بارے میں کچھ خدشات ہیں کہ جن کثیر الثقافتی افراد کو میڈیکئیر کی سہولت حاصل ہے انکو یہ سکیم کیا تعاون فراہم کرتی ہے۔

میڈیکیئر شیڈول میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں جو دوسری زبان بولنے والے مریضوں کو مترجمین کی سہولت فراہم کرتی ہو۔

آر اے سی جی پی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کو یقین دلایا گیا ہے کہ اگر کسی مترجم کے ساتھ طویل مشاورت ضروری ہو تو وہ اس کا احاطہ کیا جائے گا۔

لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ تجویز اصل تشویش کو دور نہیں کرتا ہے۔

سی آئی آر سی اے کے مطالعے سے پتا چلا ہے کہ متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے مریضوں نے مستقل طور پر یہ محسوس کیا کہ انہیں ملاقات میں اتنا وقت نہیں دیا  جاتا کہ وہ یا ڈاکٹر پوری طرح سے انکا مسلہ سمجھ سکیں یا انھیں سوال کرنے کا موقع دیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ میڈیکیئر میں مہنگائی کے مطابق تبدیلی نہیں آئی جسکی وجہ سے خطرناک امراض میں مبتلا افراد کا ٹھیک سے علاج نہیں ہوپاتا۔

 


شئیر