اس ضمن میں ملک بھر میں قریب 80 سپر مارکیٹس میں حکومت کی جانب سے روانہ کیے گئے صارفین نے اشیاء کے نرخوں کا جائزہ لیا۔
اس مدعے کو گروسری اولمپکس کا نام دیا جارہا ہے جس کا مقصد ان مارکیٹس کی جانب سے نرخوں کے تعین سے متعلق شکوک و شبہات کی تحقیقات کرنا ہے۔
حکومت کی جانب سے روانہ کیے گئے ان افراد نے ان مارکیٹس میں اشیاء کی قیمتوں کا نزدیکی جائزہ لیا۔
ان کے جائزوں سے پتہ چلا کہ آلڈی مارکیٹس میں کم از کم 14 ضروری اشیاء کے نرخ دراصل میں وولزورتھ کے مقابلے میں 25 فیصد کم ہیں۔
چوائس میگزین کے ایڈیٹوریل ڈایریکٹر مارک سیرل کہتے ہیں کہ تمام شواہد اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔
معاون وزیر برائے رقابت یا کمپیٹیشن اینڈریو لی کے بقول یہ سب معلومات حکومتی رپورٹ کا حصہ ہیں جو تین سال کے وقفے سے جاری کی جارہی ہیں۔
یہ سب معاملہ اس وقت گرماگرم بحث کا حصۃ بنا جب گرینز کے سینیٹر نک مککین کی سربراہی میں سینیٹ کی انکوائری کمیٹی نے اس کی جانچ کی۔
آسٹریلیا میں آلڈی کی موجودگی کو مسابقت اور نرخوں کے کنٹرول میں مثبت سمجھا جارہا ہے تاہم یہ سپر مارکیٹ ہرجگہ موجود نہیں۔
مثال کے طور پر ناردرن ٹیریٹوری اور تسمانیہ ریاست میں اس کی عدم موجودگی کے باعث صارفین کو اوسط بنیادوں پر ہفتہ وار قریب 68 ڈالر اضافی خرچ کرنا پڑے۔
اسی طرح دیگر خطوں میں صارفین کو اوسط بنیادوں پر کم از 62 تا 64 ڈالر اضافی خرچ کرنا پڑے۔
چوائس میگزین کے ایڈیٹوریل ڈایریکٹر مارک سیرل کہتے ہیں کہ صارفین کو خریداری کے لیے جانے سے قبل ان مارکیٹس میں نرخوں کا جائزہ لینا چاہیے۔
وولزوتھ کا کہنا ہے کہ وہ صارفین کو ہر قسم کے انتخاب اور ہوم ڈیلوری فراہم کرتا ہے۔
کولز کا بھی یہی موقف ہے اور اصرار ہے کہ اس سروے میں ایک جیسی اشیا کی قیمتوں کا موازنہ ہونا چاہیے۔
اشیا خوردونوش کی قیمتوں کی جانچ کی اگلی رپورٹ ستمبر میں منظر عام پر آئے گی۔