بین الاقوامی طلباء کی تعداد کو کنٹرول کرنے کا نیا منصوبہ: ویزا درخواستوں کی پراسیسنگ میں تاخیر

international students

From 1 July 2023, student visa holders can work no more than 48 hours a fortnight while studying. Source: SBS

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

آسٹریلوی حکومت نے اگلے سال یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی طلباء کی تعداد کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نیا اقدام متعارف کرایا ہے جو ویزا درخواستوں کی پراسیسنگ کو سست کر سکے گا تاہم تعلیم کے شعبے اور اپوزیشن کی جانب سے اسے تنقید کا نشانہ بنا جا رہا ہے.


بین الاقوامی طلباء کی تعداد پر 'کیپ' یعنی حد متعارف کرانے میں ناکامی کے بعد، آسٹریلیا میں برسراقتدار لیبر پارٹی کی حکومت نے پارلیمانی سلسلے سے باہر اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔

نئے پالیسی کے تحت، جب کوئی یونیورسٹی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ بین الاقوامی طلباء کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو پورا کر لے گی، تو امیگریشن عملہ آف شور طلباء کی ویزا درخواستوں کی پراسیسنگ سست کر دے گا۔

یہ پالیسی وزیر کی ہدایات کے تحت نافذ کی جائے گی، نہ کہ کسی قانونی بل کے ذریعے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے عمل درآمد کے لیے پارلیمنٹ میں کوالیشن اور گرینز کی حمایت کی ضرورت نہیں ہوگی۔

وفاقی وزیر برائے مالیات کیٹی گیلاگر کہتی ہیں کہ یہ اقدام بین الاقوامی طلباء کی تعداد کی پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

یہ وزارتی ہدایت بدھ 18 دسمبر کو جاری کی گئی، بعد ازاں حکومت نے ایک موجودہ ہدایت کو منسوخ کر دیا تھا جس نے تعلیمی شعبے میں تنازعہ کو جنم دیا تھا۔

مینیسٹیریل ڈائریکشن 107یا وزارتی ہدایت 107 جو ایک سال قبل جاری کی گئی تھی، نے امیگریشن عملے سے کہا تھا کہ وہ کم خطرے والے ممالک سے آنے والی طالب علموں کی ویزا درخواستوں کو ترجیح دیں اور ایسے اداروں کو ہی منتخب کریں۔

وفاقی وزیر تعلیم جیسن کلیئر نے اس ہدایت کو 'حقیقی کیپ' قرار دیا، جبکہ یونیورسٹیز آسٹریلیا، جو یونیورسٹی شعبے کی بڑی تنظیم ہے، نے کہا کہ اس ہدایت نے علاقائی اور چھوٹی یونیورسٹیوں پر مالی اثرات مرتب کیے ہیں۔

وزارتی ہدایت 107 کے تحت، 2023 سے 2024 مالی سال میں ویزے جاری کرنے کی تعداد میں کمی آئی تھی، جو پچھلے مالی سال سے 60,000 کم تھی۔

ایلک ویب، ریجنل یونیورسٹیز نیٹ ورک کے سی ای او ہیں۔

وہ حکومت کی جانب سے وزارتی ہدایت 107 کو منسوخ کرنے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

لیکن سب لوگ اس نئی ہدایت سے خوش نہیں ہیں۔

نئی ہدایت کے تحت، ویزے کی تعداد جب ہر یونیورسٹی کے لیے حکومت کے مقرر کردہ بین الاقوامی طلباء کے ہدف کے 80 فیصد تک پہنچ جائے گی تو پراسیسنگ سست ہو جائے گی۔

ویکی تھامسن گروپ آف ایٹ کی چیف ایگزیکٹو ہیں، جو آسٹریلیا کی آٹھ ایلیٹ تحقیقی یونیورسٹیوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ نئی ہدایت بین الاقوامی طلباء کی مارکیٹ کو الجھا سکتی ہے، جس سے شعبے کو مزید نقصان ہو سکتا ہے۔

2023 کے آخر سے، آسٹریلیا میں لیبر حکومت نے بین الاقوامی طلباء کے قوانین میں نو تبدیلیاں کی ہیں، جس کے بعد بین الاقوامی طلباء کی تعداد پر کیپ لگانے کے حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا۔

یہ بل دسمبر میں پارلیمنٹ سے منظور نہ ہو سکا، کیونکہ دونوں کوالیشن اور گرینز نے اس بل کی مخالفت کی۔

تاہم، بین الاقوامی طلباء کے حوالے سے جاری بحث نے یونیورسٹیوں میں ملازمتوں کی کمی کے بارے میں تشویش پیدا کی ہے، جو کہ بین الاقوامی طلباء کو آمدنی کے طور پر بڑی حد تک انحصار کرتی ہیں۔

اکتوبر میں، آسٹریلوی نیشنل یونیورسٹی نے ملازمتوں میں کمی کا اعلان کیا تھا، کیونکہ اس نے اس سال 200 ملین ڈالر کا خسارہ دیکھا تھا۔

ایک بیان میں، ڈاکٹر ایلسن بارنس، نیشنل ٹیچری ایجوکیشن یونین کی نیشنل صدر نے کہا کہ وفاقی حکومت کو بین الاقوامی طلباء کے قوانین میں تبدیلیوں کے نتیجے میں کسی بھی ملازمت کے نقصانات کی ضمانت دینی چاہیے۔

کوالیشن کے امیگریشن ترجمان ڈین تھیہن نے بھی نئی پالیسی کی تنقید کی۔


________________________________________________________________



کس طرح ایس بی ایس اردو کے مرکزی صفحے کو بُک مارک بنائیں یا


کو اپنا ہوم پیج بنائیں۔


شئیر