آسٹریلیا میں اسلاموفوبیا کے موضوع پر شائیع ہونے والی چارلس اسٹیورٹ یونی ورسیٹی کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اسلامو فوبیا صرف مسلمانوں کے لئے ہی ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ آسٹریلیا میں معاشرتی ہم آہنگی برقرار رکھنےکے لئےبھی مذہبی منافرت پھیلانے والے گروپس سے نمٹنا ضروری ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عام طور پر مسلمان خواتین اور لڑکیوں کو عوامی مقامات پر زبانی طور پر ہراسساں کرنے اور بعض صورتوں میں جسمانی تشدد اور موت کی دھمکیوں تک کا سامنا رہتا ہے اور اکثر اوقات مسلمانوں کو ہراساں کرنے میں سفید فام نسل پرست افراد ملوث ہو تے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اگر اُن کے ساتھ قابل شناخت مسلمان والدین ہوں تو پری اسکول کےزمانے سے ہی مسلم بچوں سے اسلامو فوبیا کے باعث بدسلوکی جاتی ہے ۔کرائیسٹ چرچ مسجد پر دہشت گرد حملے کے بعد بھی مذمتی بیانات، حملے کی بنیادی وجوہات، اور محرکات کی تحقیقات کے مطالبوں کے شور میں اسلاموفوبیا پر بڑی بحث ہوتی رہی ہے۔
اسلاموفوبیا کی حالیہ پرُ تشدد مثال چھ جون کو کنیڈا میں دیکھنے میں آئی جہاں حکام کے مطابق ، پاکستانی نژاد افضال کنبے کے چار افراد - جن میں خود سلمان افضال، ان کی بیوی ، ان کی نوعمر بیٹی اور سلمان افضال کی والدہ ، لندن ۔ اونٹاریو میں سیر کے لئے باہر نکلے تھے ، جب ایک ٹرک ڈرائیور نے اپنے ٹرک کے ذریعے انہیں روند ڈالا۔ کنیڈین استغاثہ نے بیس سالہ شخص کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔کنیڈا کے شہر لندن میں حالیہ دہشت گردی کا شکار بننے والے سلمان افضال خاندان کی میلبورن میں مقیم فرسٹ کزن فاطمہ قدوائی آسٹریلیا میں اسلاموفوبیا کی موجودگی سے اتفاق کرتی ہیں ۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ خود اپنی دوست کے حجاب پہنے سے پہلے اورحجاب پہنے کے بعد کے باہر نکلنے کے بعد کے رویے کے فرق کو محسوس کر سکتی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اب وہ عام مقامات پر موجود لوگوں کی باڈی لیگویج سے اندازہ لگا سکتی ہیں کہ حجاب پہنے والی خواتین کے ساتھ ایک غیر دوستانہ رویہ رکھا جاتا ہے۔
A man holds a sign at a funeral for the four Muslim family members killed in a deadly vehicle attack, in London, Ont. Canada on June 6 2021. Source: The Canadian Press
اسلاموفوبیا کو ثابت کرنا آسان نہیں مگر اسے واضع طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے
فاطمہ کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں اسلامو فوبیا موجود ہے اور حکومت کو مذہبی منافرت سے نمٹنے کے لئے عملی اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
فاطمہ قدوائی نے اپنے فرسٹ کزن سلمان افضال کو ہمیشہ مسکرانے والا بھائی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی پھوپی اور کزن کے اس خاندان کی جدائی کا دکھ اب ان سب کے لئے زندگی بھر کا دکھ ہے۔
اریج انور لندن اونٹاریو میں مقامی مسجد کے امام ہیں، انہوں نے ایس بی ایس اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سلمان ایک انتہائی نفیس انسان تھے اور ان کے سلمان سے دوستانہ مراسم تھے۔ امام صاحب کا کہناتھا کہ ایسے واقعات کے پیچھے ایک ہی سوچ ہے جو کہ اسلام نفرت پر مبنی ہے۔
ذیشان اعجاز مقامی طور پر لندن ہی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں پر نوکری کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے آج تک ایسا واقعہ اس سے قبل لندن میں
نہیں دیکھا۔ لوگ آپس میں محبت سے رہتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بھی کینیڈین کمیونٹی پوری طرح سلمان خاندان کے ساتھ کھڑی ہے۔ کے مطابق آن لائن اور آف لائن کچھ انتہا پسند گروپس نے تفصیل سے بتایا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو کس طرح قتل کرنا چاہتے ہیں اور پھر بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سے کوئی تفتیش یا قانونی چارہ جوئی نہیں ہوسکتی ہے۔
Caskets draped in Canadian flags arrive at a funeral for the four Muslim family members killed in a deadly vehicle attack Canada on 6th. June. 2021. Source: POOL The Canadian Press
نفرت پھیلانے والے گروہوں کا سرگرم رہنا ، منافرت کے خلاف آسٹریلیا کے موجودہ قوانین کی افادیت پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے
رپورٹ کے مطابق یہ اور پچھلی رپورٹس صرف مسئلے کی ہلکی سی نشاندہی کرتی ہیں اور اصل مسئلہ اس سے کہیں بڑا ہے۔ نفرت انگیز جرائم اور اس سے متعلقہ واقعات کی رپورٹنگ نہ کرنے کا رحجان دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کسی قوم، لسانی یا مذہبی گروہ کے خلاف نفرت آمیز مواد کی اشاعت آسٹریلیا میں جرم ہے اور ایسا مواد گردش میں بھی ہے مگر آسٹریلیا میں اس پر سزاؤں کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔
آسٹریلیا کہ محکمہ داخلہ کے ترجمان نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ آسٹریلیا نہ صرف کنیڈا کے شہر لندن میں حالیہ دہشت گردی واقعےکی بلکہ نفرت کی بنیاد پر تشدد کی تمام کارروائیوں کی مذمت کرتی ہے۔ترجمان کے مطابق آسٹریلین حکومت کی توجہ اپنے شہریوں کو ہر طرح کی پرتشدد انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے پر مرکوز ہے۔ محکمہ داخلہ کےمطابق آسٹریلیا میں قوم پرست اور نسل پرستانہ پرتشدد انتہا پسندی کا خطرہ کئی دہائیوں سے حکومت کی نظروں میں ہے اور ملکی انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس خطرے کے لئے وسائل وقف کررہے ہیں۔
داخلی امور کی وزیرِ سیکیورٹی، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مشورے کی بنیاد پر ضابطہ فوجداری کے تحت ایسی تنظیموں پر نظر رکھتی ہیں جنہیں دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
آسٹریلیا میں منافرت پھیلانے پر دس سال تک کی قید کی سزا اور جرمانوں کا اطلاق ہوتا ہے ان جرائیم میں دہشت گرد تنظیموں کا ممبر بننا ، ان کی تربیت کرنا یاان کی فنڈنگ کرنا شامل ہیں
ترجمان کے مطابق سابق وزیر داخلہ کی درخواست پر ، پارلیمنٹری مشترکہ کمیٹی برائے انٹلیجنس اینڈ سیکیورٹی اس وقت شدت پسند گروہوں کے ذریعہ پیدا ہونے والے نئے خطرات کی چھان بین کررہی ہے مگر فاطمہ قدوائی کہتی ہیں کہ حکومتی اقدامات نا کافی ہیں۔
میڈیا اور سیاست دانوں کو مسلمانوں کے خلاف ایک خاص بیانئے کو بدلنے کے لئے تعصب کی عینک اتارنا ہو گی
فاطمہ سمجھتی ہیں کہ اسلامو فوبیا کے رحجان کو بدلنے کے لئےمسلمانوں کو آسٹریلیا کی سیاست میں حصہ لے کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے۔ آسٹریلیا کی خفیہ ایجنسی کے ترجمان سینیٹ کمیٹی کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ ملک میں انسداد دہشت گردی کے چالیس فیصد چھان بین کے معاملات میں دائیں بازو کی پرتشدد انتہا پسندی شامل ہے۔پچھلے سال آسٹریلین خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل مائک برجیس نے کینبرا کے مرکزی دفتر میں اپنے غیر معمولی خطاب میں کہا تھا کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے "چھوٹے سیل" نازی جھنڈوں کو سلام پیش کرنے ، ہتھیاروں کا معائنہ کرنے اور اپنے "نفرت انگیز نظریے" کو پھیالنے کے لئے باقاعدگی سے جمع ہو تے ہیں۔
Director-General ASIO Mike Burgess speaks during a Parliamentary Joint Committee last year. Source: AAP
آسٹریلیا کے انتہا پسند دنیا کے دوسرے حصوں میں ہم خیال افراد کے ساتھ رابطے بڑھا رہے ہیں
انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ دائیں بازو کے انتہا پسند (رائیٹ ونگ اکسٹریمسٹ) گروہ پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ منظم ہیں مگر اس کے ساتھ ہی اُن کا کہنا تھا کہ پر تشدد انتہا پسند اسلامی گروہ اب بھی سب سے ذیادہ باعثِ تشویش ہیں۔
پوڈ کاسٹ سننے کے لئے اوپر دئے آڈیو آئیکون پر کلک کیجئے
یا پھرنیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے
- جانئیے کہ یا کو اپنا ہوم پیج بنائیں۔
- اردو پروگرام ہر بدھ اور اتوار کو شام 6 بجے (آسٹریلین شرقی ٹائیم) پر نشر کیا جاتا ہے