واجد اللہ کا کلائمبنگ کا سفر انتہائی دلچسپ اور مشکلات سے بھر پور رہا، واجد اللہ پاکستان میں براڈ پیک، نانگا پربت اور کے ٹو کی چوٹیاں سر کرنے کیلیے آنے والے انٹرنیشنل کلائمبرز کیلیے کھانا بنانے کا کام کرتے تھے، بین الاقوامی کوہ پیماؤں کو دیکھتے دیکھتے واجد اللہ کے اندر بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بھی ان پہاڑوں کو سر کرسکتے ہیں، اسی خواہش کو مقصد بنا کر انھوں نے یہ سفر شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔
واجد اللہ نے ایس بی ایس اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اپنی خوشگوار یادیں تازہ کیں، کوہ پیما واجد اللہ کہتے ہیں بچپن سے پہاڑوں پر جانے کا شوق تھا، روزگار نہیں تھا، خاندان کو سپورٹ کرنے اور اخراجات پورے کرنے کیلیے انٹرنیشنل کلائمبرز کیلیے کھانا بناتا اور ان کی معاونت کرتا تھا، پہلی بار ادھار شوز اور کٹ مانگ کر چوٹی سر کی، ابتدا میں بہت زیادہ مشکلات پیش آئیں لیکن وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ کامیابیاں بھی سمیٹنا شروع کردیں۔
پہاڑوں سے دوستی کرنے والے کوہ پیما واجد اللہ کہتے ہیں کلائمبنگ ایک مہنگا شوق ہے جس کے اخراجات برداشت کرنا ہر کوہ پیما کی بس کی بات نہیں، اسپانسر شپ نہ ہونے کے باعث پاکستان میں کلائمبنگ کا مستقبل خطرے میں دکھائی دے رہا ہے، واجد اللہ کے مطابق پاکستان میں کلائمبنگ کے پروفیشنل انسٹیٹیوٹ نہ ہونے کے برابر ہیں، پاکستان میں زیادہ تر کوہ پیما شوق نہیں بلکہ روزگار کیلیے یہ کام کر رہے ہیں، ان کوہ پیماؤں کو اگر اسپانسر شپس مل جائیں تو دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔
واجد اللہ کہتے ہیں 8000 میٹر سے بلند دنیا کی 14 چوٹیاں سر کرنے کی خواہش ہے، پاکستان کی 8 ہزار میٹر سے بلند مزید دو پہاڑیاں سر کرنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر ان پہاڑوں کو سر کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔