کیا آسٹریلیا میں اب مزید لوگ الیکٹرک گاڑیوں کی جانب مائل ہوں گے؟
میلبورن شہر کے باسی وقار علی خان کہتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن وہ خود فی الحال عجلت میں کوئی فیصلہ کرنے کا نہیں سوچ رہے۔ ایس بی ایس اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ الیکٹرک گاڑیوں کو ریچارج کرنے جیسے کئی دیگر عوامل اب بھی حل طلب ہیں۔ ایسا ہی بہت سے دیگر لوگ بھی سوچ رہے ہیں۔ لیکن فی الحال یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نئی تبدیلی کیا آئی ہے۔
ہوا یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے میلبورن میں عدالت عالیہ نے فیصلہ سنایا جس کے بعد یہاں پر صفر یا کم کاربن گیس خارج کرنے والی گاڑیاں اضافی ٹیکس سے مستثنیٰ قرار پائیں۔ حکام کا کہنا تھا کہ یہ قریب دو سینٹ فی کلومیٹر کا ٹیکس اس لیے عاید کیا گیا تھا تاکہ اس کے ذریعے حاصل ہونے والے فنڈز کو سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ اس ٹیکس کو نہ ماننے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے صارفین کا دعویٰ یہ تھا کہ اس طریقے سے لیا جانے والا ٹیکس دراصل ایکسائز کے زمرے میں آتا ہے اور محض وفاقی حکومت ہی اسے لاگو کرسکتی ہے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد وکٹوریہ کی عدالت عالیہ نے صارفین کے حق میں فیصلہ دیتے ہوے حکومت کو یہ ٹیکس معاف کرنے کا حکم دیا۔ اس بظاہر سخت فیصلے کو عدالت کے چار ججز کی حمایت حاصل تھی جبکہ تین اس کے خلاف رہے۔ یوں اب امکان ہے کہ آسٹریلیا میں دیگر خطے اور ریاستیں بھی اس ٹیکس کو نافذ کرنے کا فیصلہ نہیں کریں گی۔
ایس بی ایس اردو سے بات چیت میں وقار علی خان نے کہا کہ اس پرکشش عدالتی فیصلے کے بعد کچھ لوگ ایک بار پھر الیکٹرک گاڑی لینے کا سوچ رہے ہیں۔
کچھ لوگ تو بہت trendy ہوتے ہیں جو مارکیٹ میں آنے والی ہر نئی چیز کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ حکومت کی جانب سے دیے جانے والے ٹیکس چھوٹ کی خاطر الیکٹرک کار لینے کا سوچ رہے ہیں لیکن اب بھی بہت کچھ تبدیل کرنا ہوگا جیسا کہ فیولنگ اسٹیشنز وغیر پر۔وقار علی خان
وقار کے بقول نئی الیکٹرک گاڑی کو چند سال بعد بازار میں بیچنے پر کافی صارفین کو مالی نقصان ہوتا ہے جبکہ پٹرول یا ڈیزل گاڑی کی قیمتیں انتی زیادہ نہیں گرتیں۔ ان کے بقول اس جیسے دیگر کئی عوامل ہیں جو حکومت کی جانب سے ملنے والی ٹیکس رعایات کے باوجود الیکٹرک گاڑیوں کی خرید کو اب بھی اتنا زیادہ پرکشش نہیں بناتے۔
وکٹوریہ میں حکومت نے عدالتی فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ الیکٹرک گاڑیاں دیگر گاڑیوں کے مقابلے میں بھاری ہوتی ہیں اور سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کے لیے ان پر یہ عائد کیا گیا یہ ٹیکس مناسب تھا۔
اس کے برعکس ماحول دوست گرین پارٹی نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوے مطالبہ کیا ہے کہ جن الیکٹرک کار مالکان سے یہ ٹیکس لیا گیا تھا ان کو ری فنڈ ملنا چاہیے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس پارلیمان کی جانب سے The Electric Discount Car Bill کی منظوری کے بعد الیکٹرک گاڑی کے مالکان کو کافی حد تک ٹیکس چھوٹ حاصل ہوچکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کسی بھی ادارے یا کاروبار کے توسط سے الیکٹرک گاڑی خریدنے والے صارف آسٹریلیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر فرنج بینیفٹ ٹیکس کی مد میں چار ہزار ڈالر کے قریب بچت کر سکتے ہیں۔
بعض ماحول دوست سیاست دان اس فیصلے سے بھی زیادہ خوش نہیں اور ان کے بقول اس پالیسی سے پلگ ان ہائیبرڈ گاڑیوں کو فروغ ملے گا جو الیکٹرک چارج لیتی ہیں لیکن ان کے انجن پھر بھی internal combustion کے ذریعے آلودگی پھیلاتے ہیں۔ حکومت کا البتہ موقف ہے کہ سرکاری امور کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کی خرید پر خاص توجہ دی جاے گی اور یوں بتدریج آسٹریلیا میں الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ ہوسکے گا۔
سڈنی میں ٹیکس امور کے ماہر فھد صدیقی نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ فی الوقت اس اسکیم سے محض وہ لوگ مستفید ہوسکتے ہیں جن کے لیے ان کی ملازمت کی طرف سے گاڑی خرید کر فراہم کی گئی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی کچھ اور شرطیں بھی پوری کرنی پڑتی ہیں۔
گاڑی کی مکمل قیمت 94،000 ڈالر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور یہ اسکیم جو حکومت نے متعارف کروائی ہے یہ فی الحال جون 2027 تک ہی نافذالعمل ہے اور اس کے بعد پھر جائزہ لیا جاے گا۔ اگر آپ کا اپنا ABN ہو تو آپ اسکیم سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں بشرطیہ آپ اس میں employee نہ ہوں۔فھد صدیقی
مجموعی طور پر کہا جارہا ہے کہ حکومتی مراعات ، ٹیکس چھوٹ اور نئی الیکٹرک گاڑیوں کے پرکشش ماڈلز کے باوجود اب بھی صارفین مکمل طور پر پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کو بھلادینے کا نہیں سوچ رہے۔
............................................................................................................................................................
ڈیوائیسز پر انسٹال کیجئے
§ پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے: