- جن ممالک میں بولی جانے والی پہلی زبان انگریزی نہیں ہے ، ان کے شہریوں کے لئے آسٹریلیا میں مستقل قیام کا حصول مشکل ہو سکتا ہے
- کووڈ 19 مستقل رہائش کے حصول کے حوالے سے مشکل اور آسانی دونوں ساتھ لایا ہے ۔
- پاکستان سے آسٹریلیا آنے والے طلبا کے لئے ویزہ حاصل کرنے کے مواقع بڑھتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں ۔
رواں ماہ پیش کئے گئے وفاقی بجٹ کے ساتھ جو ویزہ تبدیلیں سامنے آئی ہیں ان تبدیلیوں نے آسٹریلیا میں مقیم غیر ملکی تاریک وطن ، طلبا اور مستقل سکونت رکھنے والے افراد سب کو مخمصے میں ڈال دیا ہے ۔ اس حوالے عمران علی لاکھانی جو میلبرن میں گذشتہ بارہ سال سے مائیگریشن ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں ، کہتے ہیں کہ اس وقت شریک حیات کے ویزے کے حوالے سے کی گئی تبدیلویں کے بارے میں الجھن موجود ہے ۔ ان کے مطابق بطور مائیگریشن ایجنٹ اچانک شریک حیات کے لئے انگریزی سیکھنے کی شرط سامنے آنا ہمارے لئے بھی حیران کن تھا ۔ انہوں نے اس شرط کی تفصیلات بتانے ہوئے کہا کہ پہلا ویزہ ملنے کے بعد آسٹریلیا پہنچ کر پارٹنر کے لئے دو سال کے دوران انگریزی زبان سیکھنے کے لئے پانچ سو گھنٹے پورے کرنا ہونگے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ پارٹنر کا ویزہ حاصل کرنے والے شخص نے اپنی تعلیم کس زبان میں حاصل کی ہے اس بات کو مدنظر رکھا جائے گا ۔ عمران لاکھانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس تمام صورتحال میں خوش کن خبریہ ہےکہ پارٹنر ویزہ گرانٹس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔
کووڈ 19 نے جہاں ہر چیز کو متاثر کیا ہے وہیں بیرون ملک سے آسٹریلیا ہجرت کرنے والے افراد کے لئے مواقع بھی متاثر کئے ہیں ۔ مائیگریشن ایجنٹ عمران لاکھانی کہتے ہیں کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کووڈ 19 نے طلبا کے لئے جہاں مشکلات میں اضافہ کیا ہے وہیں مستقل رہائش کے حوالے سے امید بھی پیدا کی ہے ۔ عمران لاکھانی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال اور بین الاقوامی سرحدی بندش کے باعث توقع ہے کہ آسٹریلیا میں موجود وہ افراد جو اب آسٹریلیا کو ہی اپنا ملک بنانا چاہتے ہیں ان کو مستقل رہائش کے حصول میں آسانی ہوگی ۔ اس کے علاوہ رواں سال کرونا وائرس کے باعث بین الاقوامی طلبا آسٹریلیا نہیں آسکے ۔اس کے بعد امید ہے پاکستانی طلبا کے لئے ویزہ حصول کا امکان بڑھ جائے گا ۔ چین اور آسٹریلیا کے مابین تناو بھی بین الاقوامی طلبا کا ایک خلا پیدا کر سکتا ہے اور پاکستانی طلبا بہ آسانی اس خلا کو پر کر سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی وہ شعبے جن میں جلد ویزہ یا مستقل رہائش کا حصول ممکن ہے اس حوالے سے عمران لاکھانی کہتے ہیں کہ اس وقت بین الاقوامی طلبا کو طب کے شعبے اختیار کرنے چاہیں۔ آخر میں بین الاقوامی طلبا کو مشورہ دیتے ہوئے عمران علی لاکھانی کا کہنا تھا کہ نرسنگ کی ڈگری یا ڈپلومہ اس وقت اور آنے والے وقت میں طلبا کے لئے نہایت سود مند ثابت ہو سکتا ہے ۔