کرکٹ کے میدان میں تو سنچری چند ہی لمحوں میں بن جاتی ہے جو مدتوں یاد بھی رہتی ہے لیکن ہم آج آپ کو ملوائیں گے ایک ایسے کھلاڑی سے جس کو اپنے ریکارڈز کی سنچری تک پہنچنے میں دس سال کا عرصہ لگ گیا، آہنی ہاتھ ، ہتھوڑے سا سر، ٹانگیں اسٹیل کی طرح مضبوط اور ارادے پہاڑ کی طرح بلند ، جی ہاں، بات ہورہی ہے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی تنگ گلیوں میں رہنے والے گمنام کھلاڑی محمد راشد نسیم کی، جس کے پاس مناسب ٹریننگ کیلئے جگہ تک نہیں، کوئی حکومتی فنڈ نہیں، لیکن مضبوط ارادوں سے دنیا بھرمیں پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتا ہے۔
بچپن میں جسمانی طور پر کمزور اور ایک ڈرے سہمے بچے کی طرح زندگی گزارنے والے محمد راشد نسیم نے 96 عالمی ریکارڈز کیسے قائم کیے، اس دوران انھیں کن مشکلات کا سامنا رہا، اس کیلیے ایس بی ایس اردو نے راشد نسیم سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
راشد نسیم کہتے ہیں عالمی ریکارڈز کی سنچری کا دس سال قبل خواب دیکھا تھا، 2024 میں ورلڈ ریکارڈز کی سنچری مکمل کر کے مارشل آرٹ میں 100 ریکارڈز بنانے والا دنیا کا پہلا شخص بننا چاہتا ہوں، عالمی ریکارڈز بنانے کے حوالے سے راشد نسیم کا کہنا ہے کہ ہر ریکارڈ کی پریکٹس مختلف اور اس کی ضروریات علیحدہ ہوتی ہیں، مارشل آرٹ کی مخلتف کیٹیگریز میں موجود ریکارڈز کو توڑنا اور اپنے ریکارڈ بنانا آسان نہیں۔
یکے بعد دیگرے دنیا بھر کے مارشل آرٹسٹس کے ریکارڈز توڑنے والے راشد نسیم کہتے ہیں پاکستان سے باہر جب بھی گیا کبھی شکست کھا کر واپس نہیں آیا، راشد نسیم نے دعویٰ کیا کہ مارشل آرٹ کیٹیگری کی دنیا میں ان کے پاس سب سے زیادہ عالمی ریکارڈز موجود ہیں۔
ریکارڈز مشین کہلائے جانے والے راشد نسیم 96 عالمی ریکارڈز تک آسانی سے نہیں پہنچے ، وہ بتاتے ہیں کہ روزانہ 4 سے 5 گھنٹوں کی سخت جسمانی ٹریننگ اُن کا معمول ہے، راشد نسیم کے مطابق کئی بار ریکاڈرز بنانے میں خطرات بھی موجود ہوتے ہیں، انجری ہوتی ہے ، سر، ہاتھ اور پاؤں زخمی بھی ہو جاتے ہیں تاہم ان کا یہ جذبہ اِن خطرات کو آڑے نہیں آنے دیتا۔
راشد نسیم نے بتایا کہ ان کے ریکارڈز گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز کی شرائط کو مدںظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں، گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز کو اپنے بنائے گئے ریکارڈز کی مختلف زاویوں سے ویڈیوز اور تصاویر بنا کر بھیجتے ہیں جس کے بعد گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے ججز اس کا جائزہ لیتے ہیں اس طرح ریکارڈ کی تصدیق ہو جاتی ہے یا پھر اسے مسترد کر دیا جاتا ہے
راشد نسیم کہتے ہیں پاکستان میں مارشل آرٹ کا مستقبل روشن ہے، ہمارے نوجوان عالمی سطح پر میڈلز جیت سکتے ہیں لیکن حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہ شعبہ زوال پذیر ہے۔
راشد نسیم ہی نہیں بلکہ ان کی اہلیہ ، بیٹی اور 70 سالہ بزرگ والد بھی عالمی ریکارڈ قائم کر چکے ہیں ، راشد نسیم نے بتایا کہ ہم بطور خاندان اپنے حصے کا کام اور ملک کا نام روشن کرنے میں مصروف ہیں۔
(رپورٹ: احسان خان)