پیرس اولمپکس کا آخری دن: آسٹریلین ٹیم کی تاریخی کامیابی ، میڈلز ٹیبل پر چوتھی پوزیشن

آسٹریلیا نے اولمپک کھیلوں میں تمغوں کی تعداد میں چوتھے نمبر پر رہنے کے بعد اب تک کے بہترین نتائج حاصل کیے ہیں۔

A group of women wearing green and gold outfits pose for a photograph on a basketball court. Some are holding Australian flags

The Opals' bronze medal win was powered by a new generation of talent. Source: Getty / Paul Ellis

آسٹریلیا نے اپنی پیرس اولمپک مہم کا اختتام باسکٹ بال اور سائیکلنگ میں نمایاں کامیابیوں کے ساتھ کیا۔

18 طلائی تمغوں اور مجموعی طور پر 53 میڈلز کے ساتھ، آسٹریلیا تمغوں کی تعداد میں امریکہ، چین اور جاپان کے بعد چوتھے نمبر پر آگیا۔

اوپلز(باسکٹ بال ٹیم برائے خواتین)

کھیلوں کی سب سے متاثر کن کہانیوں میں سے ایک میں، باسکٹ بال لیجنڈ لارین جیکسن نے 43 سال کی عمر میں اولمپک مرحلے میں فاتحانہ واپسی کی۔

جیکسن، جو آٹھ سال قبل گھٹنے کی چوٹ کی وجہ سے ریٹائرمنٹ پر مجبور ہو گئی تھیں، نے اس مقابلے میں شرکت کے لئے کئی مشلکلات کو شکست دی، یہ اولمپکس میں ان کی آخری شرکت تھی۔

اپنی پچھلی اولمپک مہموں میں پہلے ہی تین چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ حاصل کرنے کے بعد، جیکسن نے اپنے مجموعہ میں ایک اور کانسی کے تمغے کا اضافہ کیا جب اوپلز نے کانسی کے تمغے کے مقابلے میں بیلجیئم کو 85-78 سے شکست دی۔

پیرس میں کھیلنے کے اپنے محدود وقت کے باوجود، جیکسن نے ایک بار پھر ٹیم کا حصہ بننے کے موقع پر اظہار تشکر کیا۔

جیکسن نے کہا ، "اس وقت کا ہر لمحہ یاد رکھے جانے کے قابل ہے ، اور میں اسے اپنی ساری زندگی یاد رکھوں گی۔"

انہوں نے اپنے بیٹے لینی کے بارے میں ایک خوشکوار لمحہ یاد کرتے ہوئے بتایا، جو ان سے سوال کرتا تھا کہ وہ کھیل کے میدان میں کیوں نہیں اتر رہیں۔

"وہ ہمیشہ پوچھتا 'ماں، آپ کورٹ میں کیوں نہیں جا رہیں ؟'"
A woman in a green uniform playing basketball
Lauren Jackson defied the odds to compete in what is likely her final Olympic appearance. Source: Getty / Gregory Shamus
لیکن باسکٹ بال کی ایک عظیم کھلاڑی کے طور پر انہیں اپنے ساتھی کھلاڑیوں خاص کر نئے نوجوان کھلاڑیوں کو آگے بڑھتے دیکھ کر اصل خوشی حاصل ہوئی۔

 جیکسن کا ٹیم پر اثر و رسوخ، یہاں تک کہ سائیڈ لائنز سے بھی، واضح تھا۔

اوپلز کے لئے کانسی کا تمغہ جیتے میں نوجوان کھلاڑیوں کی واضح محنت موجود ہے، 24 سالہ ایزی میگبیگر نے شاندار کارکردگی پیش کی جس نے ٹیم کے مستقبل کے ستاروں میں سے ایک کے طور پر ان کی حیثیت کو مستحکم کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ، 21 سالہ جیڈ میلبورن اور 19 سالہ اسوبل بورلیس نے بھی اہم کردار ادا کیا، جس سے آسٹریلین باسکٹ بال کے شائقین کو پرجوش کر دیا ہے کہ وہ سال 2032 برسبین گیمز کے لئے امیدیں جمع رکھیں ۔

ٹریک سائیکلنگ

جہاں باسکٹ بال کورٹ جذباتی الوداع کا منظر پیش کر رہا تھا، ویلڈروم نے ایسے مقابلوں کا مشاہدہ کیا جنہوں نے آسٹریلیا کے لئے تمغوں کی تعداد میں متاثر کن اضافہ کیا۔
A man in a green and gold lycra outfit sits up on a bicycle
Australia's Matthew Richardson after winning silver in the men's keirin track cycling race at the Paris Olympics. Source: Getty / Pete Dovgan
میٹ رچرڈسن سائیکلنگ میں نمایاں اداکاروں میں سے ایک کے طور پر ابھرے، مردوں کے کیرن میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔

ایک سخت مسابقتی دوڑ میں، رچرڈسن ڈچ سائیکلنگ کے عظیم ہیری لاوریسن کچھ دور کے فاصلے پر رہ گئے ، ڈچ کھلاڑی نے طلائی تمغہ حاصل کیا

ٹیم سپرنٹ میں اس سے قبل کامیابیاں سمیٹنے کے بعد، رچرڈسن کا چاندی کا تمغہ ان کا گیمز کا تیسرا تمغہ تھا۔

اپنے چوتھے اور آخری اولمپکس میں حصہ لینے والے میٹ گلیزٹرنے مردوں کے کیرن میں کانسی کا تمغہ جیت کر بھی اپنی شناخت بنائی۔

یہ تمغہ خاص طور پر میٹ کے لیے اہمیٹ کا حامل تھا، جنہوں نے اپنے پورے کیرئیر میں متعدد چیلنجز کا سامنا کیا، بشمول پچھلے گیمز میں چوٹیں اور کامیابی کے انتہائی قریب آنے کے بعد فتح سے محرورم رہتے ہوئے ۔ پیرس میں ن کی استقامت کا نتیجہ نکلا، جن بالآخر انفاردی ایونٹ میں کامیابی نے ان کے قدم چومے۔
گلیٹزر نے ٹیم سپرنٹ میں آسٹریلیا کی کامیابی میں بھی اہم کردار ادا کیا، جہاں اس نے اور رچرڈسن نے پہلے ایک اور کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔

آسٹریلیا کے سائیکل سوار ایک طویل عرصے سے ایک اپنی محنت کے بل پر اپنا لوہا منواتے آئے ہیں، اور پیرس میں پرفارمنس نے ان کی کارکردگی اور اہمیت کو مزید تقویت بخشی۔

آسٹریلیا نے کھیلوں کا اختتام مجموعی طور پر 53 تمغوں کے ساتھ کیا، جن میں 18 طلائی، 19 چاندی اور 16 کانسی کے تمغے شامل ہیں، مجموعی طور پر آسٹریلیا میڈلز ٹیبل پر چوتھے نمبر پر ہے۔

پیرس میں

فرانسیسی میڈیا کے مطابق ایک شخص نے اولمپکس کے آخری دن شمالی حصے سے ایفل ٹاور پر چڑھنے کی کوشش کی تاہم پولیس نے اسے راستے میں ہی روک لیا ۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ ایک بنا قمیص کے شخص نے اولمپکس رنگز کو عبور کرتے ہوئے جب بغیر رسیوں کے 330 میٹر ٹاور پر اپنا راستہ بنایا ۔

ایک ویڈیو میں، مسکراتے ہوئے مذکورہ شخص کو سامنے آنے والوں سے یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ "بہت گرمی ،،، ہے نا؟ "(?bloody warm, innit) "جب اسے پولیس اسے ویونگ پلیٹ فارم سے باہر لے جا رہی تھی۔

پیرس پولیس کے ترجمان نے کہا کہ ان کے پاس تبصرہ کرنے کے لیے کافی تفصیلات نہیں ہیں۔

 جبکہ ٹاور آپریٹر نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا

شئیر
تاریخِ اشاعت 12/08/2024 12:20pm بجے
پیش کار Warda Waqar
ذریعہ: AAP