’ہم آسٹریلیا کے لئے پیسہ بنانے والی مشین ہیں‘ ۔ کیا انٹرنیشنل طالبہ کی وائیرل پوسٹ کی باتیں درست ہیں؟

سوشل میڈیا پر ایک جذباتی پوسٹ میں، ایک بین الاقوامی طالبہ نے الزام لگایا ہے کہ آسٹریلیا میں ملازمت دینے والوں اور یونیورسٹیوں کی جانب سے اُن جیسے طلبہ کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا ہے۔

A woman speaking.

Jamie Wu's TikTok video has struck a chord with other international students who say they are struggling in Australia. Source: Supplied / TikTok/@jamiewujq

Key Points
  • میلبورن میں مقیم ایک بین الاقوامی طالب علم جیمی وو کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں نے بین الاقوامی طلباء کو پیسہ کمانے والی مشین بنا رکھا ہے
  • انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سے بین الاقوامی طلباء کو پارٹ ٹائیم ملازمتوں میں کم تنخواہدی جاتی ہے۔
  • حکومت سٹوڈنٹ ویزا ہولڈرز پر یکم جولائی سے پندرہ دن میں 48 گھنٹے کام کرنے کی حد مقرر کر رہی ہے۔
میلبورن میں رہنے والی ایک بین الاقوامی یونیورسٹی کی طالبہ کا کہنا ہے کہ وہ آسٹریلیا میں آجروں اور یونیورسٹیوں کی جانب سے بین الاقوامی طلباء کے ساتھ ناروا سلوک سے سخت جھنجلا ئی ہوئی ہیں اور اس رویے سے تنگ آچکی ہیں۔
سنگا پور سے تعلق رکھنے والی جیمی وو، نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ اپنے مضامین میں داخلے کے مسائل کی وجہ سے فارغ التحصیل نہیں ہو پائیں گی کیونکہ انہیں اپنی یونیورسٹی سے کوئی مدد نہیں مل رہی۔ اُن کی پوسٹ کردہ ایک ویڈیو نے TikTok صارفین میں ہلچل مچادی ہے کیونکہ بین الاقوامی طلباء پہلے ہی یونیورسٹی کی بڑی فیسیں ادا کرکے داخلہ لیتے ہیں اور اس فیس کی انہیں پیشگی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ میز پر مکہ مارتے ہوئے جوشیلے انداز میں کہتی ہیں کہ تسلیم کیجئے کہ بین الاقوامی طلباء آسٹریلیا کہ لئے اہم ہیں مگر میں یہاں اپنے ساتھ پونے والے سلوک سے تنگ آچکی ہوں ۔ انہوں نے sick and tired کے الفاذ استعمال کئے۔
"جب ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم فوری اور حقیقی حل کی توقع کرتے ہیں مگر ہمیں ہفتوں انتظار کرنا پڑتا ہے
مس وو کا خیال تھا کہ آسٹریلیا بین الاقوامی طلباء کے لیے "واقعی ایک اچھا ملک" ہے، لیکن وہ ان طلبہ کو پیسہ بنانے کی مشین سمجھنے والے رویے سے عاجز آچکی ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہم صرف پیسہ نہیں ہیں، ہم حقیقی طالب علم ہیں جو سیکھنا چاہتے ہیں۔"
اس نے کہا کہ وہ انٹرن شپ کی درخواستوں پر صرف یہ سننے کے لیے ہفتوں انتظار کرتی رہتی ہیں کہ کمپنیاں "مقامی طلباء" کو ملازمت دینے کو ترجیح دے رہی ہیں۔انہوں نے کہا، "میں جانتی ہوں کہ کسی ملک میں آپ کو پہلے اپنے شہریوں کو ترجیح دینی ہوتی ہے … لیکن آپ ملازمت کے اشتہار میں واضع طور پر پہلے ہی بتا دیں کہ انٹر نیشنل طلبہ کے بجائےمقامی طلبہ پہلی ترجیح ہیں۔
محترمہ وو نے یہ بھی کہا کہ بہت سے بین الاقوامی طلباء کو جز وقتی ملازمتوں میں کام کرنے سے ناکافی تنخواہ ملتی ہے۔
انہوں نے کہا۔ کہ بہت سے بین الاقوامی طلباء کو مختلف بہانوں سے کم اُجرتیں دی جاتی ہے۔ … اور ان میں سے بہت سے شکایت نہیں کرتے کیونکہ انہیں اس نقد رقم کی ضرورت ہے،"
آسٹریلوی بیورو آف سٹیٹسٹکس کے تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ مارچ 2022 سے مارچ 2023 کے درمیان تقریباً 29,600 بین الاقوامی طلباء اعلیٰ تعلیم کے لیے آسٹریلیا پہنچے۔31 مارچ تک، آسٹریلیا میں 586,800 سے زیادہ اسٹوڈنٹ ویزا ہولڈرز تھے، جن میں سے مزید 68,100 اس وقت آف شور ہیں جو آسٹریلیا کا سفر کر سکتے ہیں۔وبائی امراض کے دوران، وفاقی حکومت نے عارضی طور پر کام کے گھنٹوں کی حد کو ہٹا دیا تھا اور بین الاقوامی طلباء کو ہفتے میں 20 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے کی اجازت دی۔
لیکن یکم جولائی سے، یہ حد دوبارہ نافذ کر دی جائے گی اور سٹوڈنٹ ویزا ہولڈرز کودو ہفتوں میں 48 گھنٹے تک کام کرنے کی اجازت ہو گی - جو کہ پچھلی حد یعنی دو ہفتوں میں 40 گھنٹے کی حد سے کچھ زیادہ ہے۔
سپورٹ نیٹ ورک فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس (SNIS)، سکریپ دی کیپ مہم کے ذریعے کام کے اوقات کی حد کو دوبارہ نفاذ کرنے کو چیلنج کر رہا ہے۔
SNIS ستمبر 2020 میں بین الاقوامی طلباء اور ان کے حامیوں سمیت متعدد تنظیموں اور افراد کے درمیان ایک باہمی تعاون کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔
اس کے کوآرڈینیٹر، نیس گاوانزو نے اس ماہ کے شروع میں ایس بی ایس فلپائنی کو بتایا کہ کام کے اوقات کی حد کو نافذ کرنے سے "بین الاقوامی طلباء کے ساتھ مزید بدسلوکی کے راستے کھل جائیں گے کیونکہ ان کے پاس دستیاب ملازمتوں کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا"۔انہوں نے کہا کہ "ویزہ کی منسوخی کا خطرہ طلباء کو خاموش رکھتا ہے کیونکہ اس کا مطلب آسٹریلیا میں ان کے مستقبل کا خاتمہ ہے۔"

شئیر
تاریخِ اشاعت 22/05/2023 11:19am بجے
تخلیق کار Madeleine Wedesweiler
ذریعہ: SBS