آسٹریلینز کو بنگلہ دیش سفر نہ کرنے کی ہدایت مگر حسینہ واجد کی اگلی منزل اب کہاں ہو گی؟

یہ انتباہ بنگلہ دیش میں پُر تشدد ہنگامہ آرائی کے باعث جاری کیا گیا ہے جس کے دوران سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ مستعفی ہو کر بیرونِ ملک فرار ہو گئیں۔مگر ابھی یہ جاننے میں وقت لگے کا کہ سابقہ وزیراعظم حسینہ واجد کی اگلی مستقل قیام گاہ کہاں ہو گی اور ملک کے مستقبل کی راہ کا تعین کون کرے گا؟

Soldiers standing above a crowd of people, many of who are holding the flag of Bangladesh on poles. The flag is green with a red disc in the centre

Soldiers stand guard during a protest near Dhaka University in Bangladesh this week. Source: AFP / Munir Uz Zaman/via Getty Images

بنگلہ دیش میں کہیں بھی سفر کرنے کا ارادہ رکھنے والے آسٹریلیائی باشندوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ “غیر مستحکم سیکیورٹی کی صورتحال اور پُر تشدد ہنگامہ آرائی کے باعث اس ملک کا سفر نہ کریں۔
محکمہ خارجہ اور تجارت نے بدھ کو اپنی اسمارٹریولر ویب سائٹ پر تازہ ترین انتباہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ دارالحکومت ڈھاکہ بین الاقوامی ہوائی اڈے تک رسائی مختصر نوٹس پر محدود کی جاسکتی ہے۔
“بہت سے اموات اور زخموں کی اطلاع دی گئی ہے۔ مختصر نوٹس پر کرفیو عائد کیا گیا ہے۔ تازہ انتباہ میں کہا گیا ہے کہ روڈ بلاکس اور چیک پوائنٹس کے ساتھ فوجی موجودگی میں اضافہ ہوا ہے۔

بنگلہ دیش میں سول نافرمانی کا آغاز کیسے ہوا؟

بنگلہ دیش میں تشدد طلباء کے خلاف امتیازی سلوک گروپ کے پرامن احتجاج کے بعد ہوا جو سول سروس ملازمت کے کوٹوں پر احتجاج کر رہے تھے۔

ڈھاکہ یونیورسٹی میں مظاہروں کا آغاز طلباء گروپ کی طرف سے سرکاری ملازمتوں میں کوٹا سسٹم کو ختم کرنے کے مطالبے سے ہوا۔ ، جس میں سول سروس کی 30 فیصد آسامیاں سابقوں فوجیوں کے رشتہ داروں کے لئے مخصوص تھیں جنہوں نے ملک کی آزادی کی لڑائی کے دوران خدمات انجام دیں۔

مظاہرین کا خیال تھا کہ یہ نظام غیر قانونی ہے، صرف وزیر اعظم شیخ حسینہ کی پارٹی کی حمایت کرنے والے اس سے مراعات حاصل کر رہے ہیں۔

طلباء کے غصے ملک میں نوجوانوں میں بڑھتی بے روزگاری کے باعث ہوا۔ عالمی بینک کے مطابق گذشتہ سال بنگلہ دیش میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح (15 سے 24 سال کی عمر کے افراد) 15.7 فیصد تھی۔

حکومت ردِّعمل کیا تھا؟

15 جولائی کو جب حکومت کی طرف سے طلباء کے گروپ کے احتجاج کو طاقت کے ذریعے نمٹنے کا فیصلہ کیا جس میں کئی سو ہلاکتیں ہوئیں اس سے احتجاج اور تشدد میں اضافہ ہوا۔

حسینہ واجد نے 16 جولائی کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو بند کرنے اور 18 جولائی کو انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کا حکم دیا۔

21 جولائی کو، سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ ملازمت کے کوٹے کو دوبارہ متعارف کرنا غیر قانونی ہے۔ تاہم، غیر مطمئن مظاہرین کوٹے کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیوئے دوبارہ احتجاج کرنے نکل آئے اور صرف اتوار کے روز 90 اموات کے بعد 5 اگست کو فوجی دباؤ میں حسینہ واجد نے استعفے پر آمادگی ظاہر کی اور بھارت چلی گئیں۔اس کے بعد بظاہر ہفتوں کے سول آرامی، تشدد اور سیکڑوں اموات کا اختتام ہوا تھا۔
A building is on fire. Three men are in the foreground
A shop on fire during protests in Dhaka, Bangladesh at the weekend. Source: AFP / Abu Sufian Jewel/via Getty Images
حسینہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک سے بھاگ گئیں۔ اس کی آخری منزل کا تعین ابھی باقی ہے، کچھ ذرائع نے ان کے دبئی جانے کا عندیہ دیا ہے۔ ملک چھوڑنے کے بعد ان کے 15 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا، شہری حقوق کے گروہس ان کے دور کو مخالفین کو کچلنے کے لئے ظلم ااور جبر کا دور قرار دیتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ ایشیاء کے ڈپٹی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ اس احتجاج میں بہت سارے لوگوں نے اپنی جان کھو دی ہے جو سرکاری ملازمتوں میں کوٹے پر پرامن طور پر شروع ہوئی، لیکن حکومت کے غلط سلوکاور سیاسی قیادت کی تکبر کی وجہ سے اموات بڑھ گئییں اور اب ایسے افراد کے لواحقین اور حسینہ کے مخالفین خوش ہوں گے۔

سول نافرمانی کے بارے میں تازہ ترین اطلاعت کیا ہیں؟

حسینہ کے فرار کے بعد ردعمل کے طور پر، مظاہرین نے وزیر اعظم کی رہائیش گاہ پر ہلّا بول دیا بلکہ ملک کے بانی اور حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن کے بنگبندھو میموریل میوزیم کو آگ لگا گر تباہ کردیا۔
حسینہ کے باہر نکلنے کے بعد صدر محمد شہاب الدین نے پارلیمنٹ تحلیل کر کے نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری وزیر اعظم مقرر کیا ۔
People in a large room. Some are sitting in chairs and others are standing.
Anti-government protesters celebrate after storming Bangladeshi Prime Minister Sheikh Hasina's palace in Dhaka on Monday. Source: AFP / K M Asad/via Getty Images
بنگلہ دیش کے آرمی چیف، وقار الز مان نے شہریوں کو یقین دلایا کہ فوج صدر شہاب الدین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے۔

“براہ کرم فوج پر ایمان اور اعتماد رکھیں۔ میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور میں لوگوں کی جانوں اور املاک کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہوں۔! ہم آپ کے مطالبات کو پورا کریں گے اور ملک میں امن اور ہم آہنگی واپس لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ فوج کی حمایت کریں اور تشدد، قتل، غنڈے گردی اور احتجاج کو روکیں۔
قومی انتخابات تین ماہ میں ہوں گے،
حزب اختلاف کی جماعت بی این پی کی چیئرپرسن خالدہ ضیا نے تقریباً چھ سال بعد قوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے ورچوئلی جلسے میں شرکت کی اور پارٹی کارکنوں اور رہنماؤں کو ایک حوصلہ افزا تقریر کی۔
انہوں نے کہا: "ہمیں محبت اور امن کا معاشرہ بنانا ہے، نہ کہ تباہی اور انتقام کا۔"
جلسے کے دوران بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے تین ماہ کے اندر منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا: "ہم صدر سے درخواست کریں گے کہ وہ انتظامیہ کو اس کے فرائض صحیح طریقے سے انجام دینے کو یقینی بنائیں۔ اسی وقت، میں عبوری حکومت کی فوری تشکیل اور تین ماہ کے اندر منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کرتا ہوں۔"
حسینہ واجد کے بیٹے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سابقہ وزیراعظم نے پناہ کی درخواست دینے کا فیصلہ نہیں کیا۔ ابھی یہ طے نہیں ہے کہ سابقہ وزیراعظم حسینہ واجد کی اگلی مستقل قیام گاہ کہاں ہو گی اور ملک کے مستقبل کی راہ کا تعین طاقتور فوج کس طرح کرے گی؟

شئیر
تاریخِ اشاعت 8/08/2024 9:57am بجے
شائیع ہوا 8/08/2024 پہلے 3:14pm
تخلیق کار Nikki Alfonso-Gregorio
پیش کار Rehan Alavi
ذریعہ: SBS